Wednesday, November 25, 2009

سوچ کی وسعت

"ھمیں ترقی کرنا چاھیے"، میں اس سوال کو انتھائی سادہ اور سیدھا سمجھ رھا تھا۔ وہ مسکرائے اور حلیم لہجے میں بولے" یہ دنیا کا مہنگا ترین سوال ہے اور جب تک کوئی انسان،قوم یا معاشرہ اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرتا اس وقت تک وہ ترقی نہیں کرتا، یہ دنیا کا قدیم ترین سوال بھی ہے۔ آج تک دنیا میں جس معاشرے، قوم نے تہذیب نے ترقی کی پیشانی چومی اس نے اس کا آغاز اسی سوال کے جواب سے کیا تھا۔" میں خاموشی سے سنتا رہا-وہ بولے،"ترقی سوچ کے بغیر ممکن نہیں، جو انسان،جوقوم اور جو معاشرہ اپنی سوچ کو بلند،وسیع اور خوبصورت نہیں بناتا وہ ترقی نہیں کرتا۔" میں چپ چاپ سنتا رہا، وہ بولے"2005 میں اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے ایک سروے کیا تھا کہ غریب قومیں غریب کیوں ہیں اور امیر قومیں امیر کیوں؟ پسماندہ قوموں کی پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں اور ترقی یافتہ قومیں ترقی یافتہ کیوں ھیں؟ اس سروے کے نتائج بڑے دلچسپ تھے۔ پتہ چلا کہ غریب قومیں اس لئے غریب ھوتی ھیں کیونکہ انکی سوچ غریب ھوتی ہے۔جبکہ امیر ممالک اس لئے امیر ھیں کیونکہ انکی سوچ رئسانہ ھے۔ اسی طرح ترقی یافتہ قوموں کی سوچ ترقی پسندانہ تھی اور پسماندہ قوموں کی سوچ پسماندہ" وہ رکے، انھوں نے لمبا سانس بھرا اور نرم آواز میں بولے" ترقی اور خوشحالی ایک ایسا پرندہ ہے جو صرف بلند سوچ اور وسیع ظرف کے درختوں پر بیٹھتا ھے۔ چنانچہ اگر تم لوگ ترقی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اپنی سوچ کو وسیع اور بلند کرنا پڑے گا بصورت دیگر تم ترقی نھیں کر سکو گے۔" وہ خاموش ہو گئے۔

مجھے ان کی بات سے اتفاق تھا۔ دنیا میں واقعی تنگ نظر لوگ، محدود سوچ کی حامل قوتیں اور چھوٹی سوچ کے معاشرے ترقی نہیں کر سکتے، میں ان کے فلسفے سے بھی اتفاق کرتا تھا کہ آپ جب بڑے شہروں سے چھوٹے سفر کرتے ہیں تو آپ لوگوں کے ذہن کے افق سمٹے نظرآتے ہیں، چھوٹے علاقوں کے 95 فیصد لوگوں کی سوچ چھوٹی ہےہوتی ہے۔ جبکہ بڑے شہروں، بڑے علاقوں اور بڑے ملکوں اور ترقی یافتہ معاشروں کا وین، لائف سٹائل، علم اور سوچ بھی ترقی یافتہ، وسیع اور خوبصورت ہوتی ہے۔ جبکہ ہم درویش لوگ سیرت اور سنت کو سب سے بڑی سٹڈی، ریسرچ رپورٹ اور ڈیٹا سمجھتے ہیں۔ تم اب امریکہ، یورپ، جاپان اور چین کی ترقی کو ذہن میں لاؤ۔ اور میں تم سے سیرت اور سنت کے حوالے سے بات کرتا ھوں اور ہم کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں، نبی کریم ُ کے مکہ اور مدینہ کو دیکھو، کیا وہ ترقی یافتہ تھے؟ کیا ان میں سڑکیں، ڈیم، فیکٹریاں، کھیت، بینکس، کریڈٹ کارڈز، یونیورسٹیاں، انڈر گراؤنڈ ریلوے، کمپیوٹر، ایٹمی بجلی گھر اور شاپنگ مال تھے؟" وہ رکے ، دم لیا، اور دوبارہ بولے۔"نہیں تھے۔عرب اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین علاقہ تھا، اس ریگستان میں پانی کے چند چشموں، کھجوروں کے چند باغات اور چند سو اونٹوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پورے عرب میں پانچ چھہ سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے، لوگوں کو تنور کی روٹیاں چکھے مہینے گزر جاتے تھے اور لوگ ایک تہبند اور ایک کرتے میں دس دس برس گزار دیتے تھے، یہ لوگ پوری زندگی میں صرف تین دفعہ جوتے بنواتے تھے، اونٹ اور ٹٹو ان کی سواری تھے اور کھجور اورشہد ان کا لائف سٹائل جبکہ اس کے مقابلے میں اس وقت ایران اور روم کی سلطنتیں اپنے معراج کو چھو رہی تھیں، رومی سلطنت چھ براعظموں تک پھیلی تھی اور پورے پورے شہروں کو گرم پانی سپلائی کیا جاتا تھا اور لوگ گرم حماموں میں خوشبودار صابن سے نہایا کرتے تھے اور ڈایننگ ٹیبلوں پر کھانا کھاتے تھے، روم کے پورے شہر کی گلیاں پکی تھی نالیاں پتھر کی سلوں کو نیچے چھپی رہتی تھیں اور ان میں سونے کے زیورات کے میل میل لمبے بازار تھے لیکن پھر کیا ہوا؟ نبی اکرمُ نے عربوں کو سوچ کا تحفہ دیا، آپ نے ان کی سوچ کو آفاقی بنا دیا" وہ رکے، انہوں نے میری طرف دیکھا اور جذباتی لہجے میں پوچھا" آپُ نے عربوں کو کیا دیا؟" وہ میری طرف دیکھتے رہے لیکن میں خاموش رہا، وہ تھوڑی تک میرے چہرے پر دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے۔"آپُ نے مدینہ اور مکہ میں فیکٹریاں نہیں لگائی تھیں، آپُ نے آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ یونیسرسٹیاں نہیں قائم کی تھیں، آ پُ نے سڑکیں، پل اور ڈیم نہیں بنائے تھے، آپُ نے ایٹمی بجلی گھر،صاف پانی کی سکیمیں، ہسپتال اور روزگار کے منصوبے شروع نہیں کئے تھے، آپُ نے بینک،مالیاتی ادارے اور سرمایہ کاری کی سکیمیں بھی شروع نہیں کی تھیں۔ آپُ نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنیاد بھی نہیں رکھی تھی اور آپُ نے دوسرے ملکوں اور دوسری قوموں کو ساتھ تجارتی معاہدے بھی نہیں کئے تھے، آپُ نے صرف عربوں کی محدود سوچ کو وسیع فرما دیا تھا، آپُ نے غلام معاشرے کے غلام لوگوں کو آقاؤں کی سوچ دی تھی، آپُ نے لوگوں کو بتایا تھا کا اللہ کی غلامی اختیار کر لو پوری دنیا تمہاری غلام ہو جائے گی، صرف اللہ سے ڈرو، انسانوں سے ڈرنے کی ضرورت اور گبھرانے کی ضرورت نہیں اور اپنی سوچ کو بلند کر لو پوری دنیا اور اس کی ترقی تمھارے سامنے چھوٹی ہو جائے گی، عربوں نے نبی اکرم ُ کی بات مان لی چنانچہ پوری دنیا ان کے قدموں میں آ گئی" وہ خاموش ہو گئے۔

میرے لئے یہ ایک نیا زاویہ تھا چنانچہ میں خاموشی سے ان کی دلیل سمجھنے کی کوشش کرتا رہا، وہ تھوڑی دیر رک کر بولے" ترقی اور خوشحالی تک پہنچنے کے دو راستے ہوتے ہیں، پہلے آپ مادی ترقی کریں اور اس کے بعد اپنی سوچ کو وسیع کریں یا پھر اپنی سوچ کو وسعت دیں اور اس کے بعد ترقی اور خوشحالی پا جائیں، پہلا طریقہ پائدار بھی نہیں، حتمی بھی نہیں اور مہذب بھی نہیں۔ دنیا کی بے شمار قوموں نے اس طریقے سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ راستے کے درمیان ہی دم توڑ گئیں، تم اس سلسلے میں منگولوں کی مسال لے سکتے ہو۔چنگیز خان نے اپنے بازؤں کی طاقت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس کامیابی نے اس کی سوچ کو وسیع نہیں کیا تھا چنانچہ آج دنیا میں چنگیز خان کی نسل اور سلطنت کا نشان تک باقی نہیں، دوسرا طریقہ ذرا لمبا اور مشکل ہے۔ لیکن پائدار بھی اور حتمی بھی۔ اس سلسلے میں آپ کو دو مسالیں دے سکتا ہوں اسلامی ریاست اور آج کے دور میں چین کی مسال۔ نبی اکرم نی عربوں کو سوچ دی۔ عرب نے اس سوچ کی بنیاد پر ایسی سلطنت قائم کی جس نے پوری دنیا کے فلسفے کو جڑوں سے ہلا دیا۔ چین کی قیادت نے بھی ایک زخمی، بیمار، بدحال اور بھوکی ننگی قوم کو سوچ دی آج یہ قوم دنیا کو لیڈ کر رہی ہے۔ لہذا یاد رکھو اگر سوچ ہو توترقی بالآخر اس سوچ تک پہنچ جاتی ہے۔ اور اگر سوچ کی لو مدہم ہو رہی ہو تو ترقی اور خوشحالی کی روشنی سمٹتے دیر نہیں لگتی، وہ خاموش ہوئے، میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا " لیکن سوچ اور اس کی وسعت کیا ہوتی ہے؟" انہوں نے قہقہہ لگایا اور نرم آواز میں بولے "برداشت" جس شخص میں برداشت نہیں ہوتی اس کی سوچ کبھی وسیع نہیں ہوتی۔ رحم، جو شخص رحم نہیں کرتا اس کی سوچ میں وسعت نہیں آتی۔ خیرات، جو شخص صدقہ خیرات کرنا نہیں جانتا اس کی سوچ کھل نہیں پاتی۔ انصاف، جو شخص عدل نہیں کرتا وہ کبھی وسیع القلبی کا ذائقہ نہیں چکھ پاتا، جو شخص صابر نہیں ہوتا اس کی سووچ کبھی پحتہ نہیں ہوتی، استقامت، جس شخص کے ارادے مضبوط نہیں ہوتے اس کی سوط کبھی وسیع نہیں ہوتی۔ قناعت، جو شخص دولت سے مالا مال نہیں ہوتا وہ کبھی اعلی سوچ کی بلند مسند تک نہیں پہنچ پاتا اور گواہی، جو شخص بلا خوف و تردید سچ اور جھوٹ کی گواہی نہیں دیتا اس کی سوچ کبھی وسیع نہیں ہو سکتی اور اللہ کے رسول نے یہی کیاتھا آپْ نے عربوں کو گواہی دینے، قناعت سے لطف اندوز ہونے، استقامت، عدل، صدقے، رحم اور برداشت کی ٹریننگ دی تھی جس کے نتیجے میں ان کی سوچ کھل گئی چنانچہ تیس برس بعد پوری دنیا ان کی ٹھوکر میں تھی اور انھوں نے اس وقت تک دنیا میں راج کیا جب تک ان کی سوچ میں وسعت رہی، جس دن وہ تنگ نظر ہوئے اس دن ترقی اور خوشحالی ان سے روٹھ گئی، یہ دنیا کے غلام بن گئے۔"